، یہ کلام بیادِ بوا فقیرؒ( مرحوم )، جامع مسجد صوفیہ نوربخشیہ خسرگرونگ میں تین روزہ اعتکاف نشینی کے اختتامی جلسے میں پڑھی گئی۔
زبان پر ذکرِ اطہر ہے تیرا احسان ہے مرشد
یہ جو جنت کا منظر ہے تیرا احسان ہے مرشد
یہ جو جنت کا منظر ہے تیرا احسان ہے مرشد
اُٹھائے ہاتھ میں تسبیح، لبوں پر ذکرِ اِلّااللہ
یہ محفل روح پرور ہے تیرا احسان ہے مرشد
یہ محفل روح پرور ہے تیرا احسان ہے مرشد
یہ نگران ہے ، یہ استاد ہے، مبلغ ہےیہ صوفی ہے
سبھی کا تُو ہی سروَر ہے تیرا احسان ہے مرشد
سبھی کا تُو ہی سروَر ہے تیرا احسان ہے مرشد
یہ جو اعتکاف میں بیٹھے ہوے پُر نُور چہروں سے
چھلکتا جامِ انور ہے تیرا احسان ہے مرشد
چھلکتا جامِ انور ہے تیرا احسان ہے مرشد
اندھیرا تھا میرے دل میں غُبارِ دشتِ عصیاں سے
کیا تو نے منورؔ ہے تیرا احسان ہے مرشد
کیا تو نے منورؔ ہے تیرا احسان ہے مرشد