میں نے قرآن پاک سے علم کا موضوع لیا ہے۔اس موضوع پر یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے.کہ آیا علم کیلئے شرائط درکار ہیں یا بغیر شرائط کے بھی علم ممکن ہے۔اورہر چیز ہوجاتی ہیں؟میرا اکثر موضوع یہی ہوتا ہے۔رب العزت نے اس قرآن پاک کے بارے میں فرمایا۔ ٭انہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون٭ یہ بڑی عزت والا اور شان والی واضح قرآن ہے۔٭فی کتاب مکنون٭یہ سیاہی اور کاغذ نہیں بلکہ لوح محفوظ پر لکھا ہوا محفوظ ہے.۔(قرآنی آیات)۔پاکیزگی کے بغیر اس کو چھونا نہیں۔اے میرے رسول آپ ؐ سے سوال ہو کہ کس کی طرف سے نازل ہواہے توآپؐ فرما دیجئے اسے رب العالمین نے نازل فرمایا ہے۔اے میرے رسول آپ ؐ سے سوال ہو کہ کس کی طرف سے نازل ہواہے توآپؐ فرما دیجئے اسے رب العالمین نے نازل فرمایا ہے۔ رب العزت نے اپنے سراپا ہدایت قرآن پاک میں ایک آیۃ مبارکہ میں ارشاد ہے ۔ کہ عطا عام ہے جب وہ لدون سے سرفراز ہوتے ہیں تو خاص بن جاتاہے۔ یہ آیۃ مبارکہ اُس وقت نازل ہواہے۔نزول کی چار صورتیں ہیں۔ اقتضاء النص ، عبارت النص ، اشارۃ النص ،دلالۃ النص
اقتضاء النص کا موقع محل یہ ہے کہ حضوراکرمؐ کی حیات ہی میں جب لوگوں میں تھوڑا بہت اختلافات شروع ہوگئے اقتضاء النص کا موقع محل یہ ہے کہ حضوراکرمؐ کی حیات ہی میں جب لوگوں میں تھوڑا بہت اختلافات شروع ہوگئے تو آپؐ فکر مند ہوگئے میرے بعد یہ اختلافات کیا صورت اختیار کریں گے؟؟ اس وقت پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور اسکے شرائط سورۃ توبہ میں بیان فرمایا۔ اس وقت پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور اسکے شرائط سورۃ توبہ میں بیان فرمایا۔ اے رسولؐ آپ کی امت میں سے جو ان شرائط پر پورا اُترے (ان کو علم و حکمت عطا کی جائے گی)ا۔ان کی شرائط کیا ہیں؟٭التائبون٭۔وہ توبہ کرنے والا ہو٭العابدون٭عبادت گزار ہو٭الحامدون٭حمدوثنا(ذکر میں مصروف رہنے)والاہو۔ ٭السائحون٭سیاح کی جمع سائحون یعنی نہ صرف ذکرکرنے والا ہوبلکہ ذکرکے مقامات پر گھومنے والا بھی ہو۔ ٭الراکعون٭والرکعومع الراکعین٭کے مطابق جمعہ جماعت قائم کرنے والا ہو۔٭الساجدون٭سجدہ کرنے والا مسلسل شکر بجالانے والا ٭الامرون بالمعروف و الناھون عن المنکر٭ نیکی کا حکم دینے والا، برائیوں سے روکنے والا ٭ والبشرالمؤمنین٭رب فرماتے ہیں میں خود اسے بشارت دیتا ہوں۔بشارت کس چیز کی ہے؟٭ واعطینا من الدونا علما٭اس لئے ان شرائط پر جو بھی اُترے انہیں دینے کیلئے عطا کو عام رکھا جو بھی ان شرائط پر پورا اُترے۔یہ من کی طرح ہے ماضی ،حال مستقبل کی طرح تمام حالتیں آتے ہیں۔ جسطرح(من) میں سب آتے ہیں اس میں بھی تمام کی تمام آتے ہیں مگر جو شرائط پر پورااُترے۔علم کی چاراقسام ہیں۔اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی غیبی علم کو کہتے ہیں علم لدونی۔ارواحِ مقدسہ انبیاء واولیاء عظام کی حقائق سے فیضیاب ہوکے جو علم حاصل ہو اُسے کہتے ہیں علمِ وہوبی جب اسلام پر مکمل استقامت حاصل ہوجائےتو رب فرماتا ہے٭تنزل الملائکہ٭تو اسکی حفاطت کیلئے فرشتوں کا نزول ہوتاہے۔ اور اُن فرشتوں سے جو علم حاصل ہوتے ہیں ۔اس علم کو کہتے ہیں۔علم ملکی، خاصیتِ ملکی،اخلاقی ملکی آج ہم کسی کے پاس جاکے جو علم حاصل کرتے ہیں اس کو علم کسبی کہتے ہیں۔ ان چاروں علم کے چا ر چار اقسا م ہے یعنی ادیان اورابدان ، صوری اور معنوی چونکہ سامعین نوجوانوں پر مشتمل ہے لہٰذہ میں نے اس سال اسی کو(علم ) کو موضوع رکھاہے۔صوری اور معنوی ملاکے چاروں علوم کی چار چار اقسام ہےیوں کل ملاکے علم کے سولہ اقسام بنتے ہیں ان میں سے دو علوم ایک کانام ہے 'فراست صوری' اور 'فراست معنوی'۔فراستِ صوری کے بارے میں سرورکائنات محمد مصطفیٰ ؐ فرماتے ہیں کہ تم چین جاکر بھی علم حاصل کرو حالانکہ چین میں کوئی دین نہیں کوئی اسلام نہیں ہے۔یا کوئی عالمِ ربانی یا اس طرح کے روحانی علوم کا منبع تونہیں ۔ یہ علم ِ صوری ظاہری علم ہے ۔تم اسے حاصل کرو تو(کسبی )علم کا ماہر بن سکتاہے۔یہ سرورکائناتؐ نے ارشاد فرمایا ہوا ہے فلسفہ والے کہتے ہیں۔خودی کوکربلند اتنا کہ ہرتقدیر سے پہلے ۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا۔ اس(علم صوری) کیلئے بھی مشقت چاہئے مشقت ۔علم صوری کیلئے بھی مشقت درکار ہے۔ابھی عبدالقدیر خان(ڈاکٹر) کوئی ولی ،پیغمبر یا رسول تونہیں ہے لیکن ایک فراست ولا آدمی لازمی ہے۔ اس علم کی حصول کیلئے ہماری قوم کو چاہئے کہ اس طعنے کو یاد رکھیں کہ پہلے لوگوں نے ہمیں خالصہ سرکار قرار دیاہے۔ خالصہ سرکار کیلئے کیا چیز دواہے؟جیسے حکومت کی بقاء کیلئے ایٹمی طاقت درکاہےاسی طرح ہمیں اپنی بقا کیلئے ظاہری علم کی ضرورت ہے اسکی حصول کے بغیر آج ہماری بقا ءمشکل ہے۔آج ہمارے علماء کُھل کُھل کے بول سکتے ہیں۔ آج کوئی سترہ گریڈ ، کوئی اٹھارہ اورکوئی انیس گریڈ کا آفیسر ہے۔کوئی وفاق المدارس کوئی تنظیم المدارس ہےاور کوئی فاضل ہے یہ سب موجود ہونے کی وجہ سے آج ہمیں کسی پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں۔ تاہم ان(علماء)کو چاہئےکہ اوامرونواہی میں وہ ''عامل صمدانی''یعنی بے باک ہو۔ صمد یعنی بے نیازی کی صفت موجود ہو۔یہ دنیاداری میں معیشت مضبوط نہ ہوتو حاصل نہیں ہوسکتی اور کھل کے تبلیغ نہیں کرسکتے اگر میں ایسا کہوں گاتوفلان چیز سے محروم ہوجاؤنگا۔فلان چیز روکےگا۔فلان خفا ہوگا۔کل کو یہ ہوگا۔وہ ہوگا اس طرح کے تصورات جب دل میں آتاہے تو بے نیازی ختم ہوتی ہے۔باب امرونواہی میں شرائط موجودہے۔''عامل صمدانی '' ۔وہ عمل کرکرکے خدائی صفتِ صمدیت کا حامل ہو یعنی بے نیا ز اور استغناکی کامل صفات کا حامل ہو۔ اس لئے یہ ظاہری علم یا فراست ِصوری کے لئے اقبال فرماتے ہیں۔ خودی کوکربلند اتنا کہ ہرتقدیر سے پہلے (اس قدر بے نیاز بن جاؤ)۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا۔ آپ اتنی مشقت کرو،اتنا تکلیف برداشت کرو کہ خدا خود تم سے پوچھ لے گا کہ تو کیا طلب کرتاہے؟آج نوجوانوں سے اس لئے مخاطب ہوں کیونکہ پہلے آپکی ناکامی سے صرف آپکے والدین شرمندہ ہوتے تھے۔ آج پوری قوم ہم سب شرمندہ ہوتے ہیں لہٰذہ خدا کیلئے ہمیں شرمندہ نہ کریں۔علم میں کوشش کرو پڑھو آگے اور پڑھو معنوی کیسا تھ ساتھ صوری بھی۔(یعنی علومِ ظاہری اور باطنِ دونوں کے حصول میں کوشاں رہو)۔ جہاں تک معنوی (علوم )کا تعلق ہے اسکے لئے رب ارشاد فرماتاہے ۔٭واعبد ربک حتی یاتیک الیقین٭ خوب بندگی کرو۔اس کیلئے بھی مشقت درکا ہے۔خوب بندگی کرو یہاں تک کہ یقین کی نعمت حاصل ہوجائے۔خداسے ملاقات کی یقین کی حد تک ۔لقائے الٰہی کی منزل تک بندگی کرو۔اُس یقین کی کیفیت تک جہاں٭ابدانھم فی الدنیا وقلوبھم فی الاخرۃ٭ بظاہرتم دنیا میں ہو مگر تمہارادل آخرت میں ہو٭وباالاشباہ فرشیون و بالارواح عرشیون٭وہ بظاہر روئے زمین پر موجود ہو۔لیکن درحقیقت وہ عرش کے مکین ہو۔٭لی مع اللہ وقت٭خدافرماتے ہیں نہ کوئی مقرب رسول یا رفرشتے بیچ میں نہیں آسکتا۔وہ براہ راست خداسے رابطے میں ہوتاہے۔ پہلے وہ محبان(رب کو یاد کرنے والا)تھا۔اب بنا محبوبان (رب خود اسکو یاد کرے)۔ پہلے تھا٭فالذکرونی٭اب بنا٭اذکرکم٭ پہلے اس نے مجھے یاد کیا تھا اب خدا فرماتے ہیں کہ خود خدا اس بندے کو یاد فرماتا ہے ۔اس منزل پر پہنچتاہے۔ اس کیلئے بھی مشقت درکار ہے۔اس کیلئے قرآن کی شرائط یہ ہیں