خطابت:- ولی مرشد ، غوث اعظم ، منبع
رشد وہدایت حضرت الحاج فقیرمحمد ابراہیمؒ
مقام:-جامع مسجد صوفیہ نوربخشیہ اورال کریس
موضوعات:
علم ، علم کی اقسام اورعلم کیلئے شرائط قرآن
پاک کی روشنی میں
فقہ الاحوط کی رُو سے اسلام میں جانشینی کا معیار اور بغیرشرائط نامزد
کئے ہوئے جانشینی کے نتائج۔
سیاحانِ عالم معرفت..................قطب التکوین ،قطب
السلوک ,غوث
نور ،اقسام اور انکی
خصوصیت.........پیر طریقت کی شرائط
مرشد کسے کہتے ہیں؟؟.............عالم انسانیت میں تذکیہ
کی اہمیت
معیار ولایت کیا ہے؟؟...............مکاشفات ،مشاہدات ،
معائنات اور تجلیات
سرورکونین
حضرت محمدؐ اور مولائےمتقیان حضرت علیؑ کے
وارث کون لوگ ہے؟ اور ان کی مثال۔
فقہ
الاحوط کی روسے جہادالاکبر (اعتکاف )کی انجام دہی کیلئے استادکی شرائط
خطاب۔۔۔
میں نے قرآن پاک سے
علم کا موضوع لیا ہے۔اس موضوع پر یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے
کہ آیا علم کیلئے شرائط درکار ہیں یا بغیر شرائط کے بھی علم ممکن ہے۔اورہر چیز ہوجاتی ہیں؟میرا اکثر موضوع یہی ہوتا ہے۔
رب العزت نے اس قرآن
پاک کے بارے میں فرمایا۔ ٭انہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون٭
یہ بڑی عزت والا اور
شان والی واضح قرآن ہے۔
٭فی کتاب مکنون٭یہ سیاہی
اور کاغذ نہیں بلکہ لوح محفوظ پر لکھا ہوا محفوظ ہے
لا یمسہ الا المتطھرون۔ پاکیزگی کے بغیر اس کو چھونا نہیں۔
اے میرے رسول آپ ؐ سے
سوال ہو کہ کس کی طرف سے نازل ہواہے توآپؐ فرما دیجئے اسے رب العالمین نے نازل
فرمایا ہے۔
رب العزت نے اپنے سراپا ہدایت
قرآن پاک میں ایک آیۃ مبارکہ میں ارشاد ہے ۔
کہ عطا عام ہے جب وہ لدون سے
سرفراز ہوتے ہیں تو خاص بن جاتاہے۔
یہ آیۃ مبارکہ اُس وقت نازل ہواہے۔نزول
کی چار صورتیں ہیں۔
اقتضاء النص ، عبارت النص ، اشارۃ النص ،دلالۃ النص
اقتضاء النص کا موقع
محل یہ ہے کہ حضوراکرمؐ کی حیات ہی میں جب لوگوں میں تھوڑا بہت اختلافات شروع
ہوگئے
تو آپؐ فکر مند ہوگئے میرے بعد یہ
اختلافات کیا صورت اختیار کریں گے؟؟
اس وقت
پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور
اسکے شرائط سورۃ توبہ میں بیان فرمایا۔
اے رسولؐ آپ کی امت میں سے جو ان
شرائط پر پورا اُترے (ان کو علم و حکمت عطا کی جائے گی)ا۔ان کی شرائط کیا ہیں؟
٭التائبون٭۔وہ توبہ
کرنے والا ہو٭العابدون٭عبادت گزار ہو٭الحامدون٭حمدوثنا(ذکر میں مصروف رہنے)والاہو۔
٭السائحون٭سیاح کی جمع
سائحون یعنی نہ صرف ذکرکرنے والا ہوبلکہ ذکرکے مقامات پر گھومنے والا بھی
ہو۔
٭الراکعون٭والرکعومع الراکعین٭کے
مطابق جمعہ جماعت قائم کرنے والا ہو۔
٭الساجدون٭سجدہ کرنے
والا مسلسل شکر بجالانے والا
٭الامرون بالمعروف و الناھون
عن المنکر٭ نیکی کا حکم دینے والا، برائیوں سے روکنے والا
٭ والبشرالمؤمنین٭رب
فرماتے ہیں میں خود اسے بشارت دیتا ہوں۔بشارت کس چیز کی ہے؟
٭ واعطینا من الدونا
علما٭اس لئے ان شرائط پر جو بھی اُترے انہیں دینے کیلئے عطا کو عام رکھا
جو بھی ان شرائط پر پورا اُترے۔یہ
من کی طرح ہے ماضی ،حال مستقبل کی طرح تمام حالتیں آتے ہیں۔
جسطرح(من) میں سب آتے ہیں اس میں
بھی تمام کی تمام آتے ہیں مگر جو شرائط پر پورااُترے۔
علم کی چاراقسام ہیں۔اللہ
کی طرف سے عطا ہونے والی غیبی علم کو کہتے
ہیں علم لدونی۔
ارواحِ مقدسہ انبیاء
واولیاء عظام کی حقائق سے فیضیاب ہوکے جو
علم حاصل ہو اُسے کہتے ہیں علمِ وہوبی
جب اسلام پر مکمل
استقامت حاصل ہوجائےتو رب فرماتا ہے٭تنزل الملائکہ٭تو اسکی حفاطت کیلئے فرشتوں کا نزول ہوتاہے۔
اور اُن فرشتوں سے جو علم حاصل
ہوتے ہیں ۔اس علم کو کہتے ہیں۔علم ملکی، خاصیتِ ملکی،اخلاقی ملکی
آج ہم کسی کے پاس جاکے جو علم
حاصل کرتے ہیں اس کو علم کسبی کہتے ہیں۔
ان چاروں علم کے چا ر چار اقسا م ہے یعنی ادیان اورابدان ، صوری اور معنوی
چونکہ سامعین نوجوانوں پر مشتمل
ہے لہٰذہ میں نے اس سال اسی کو(علم ) کو موضوع رکھاہے۔
صوری اور معنوی ملاکے
چاروں علوم کی چار چار اقسام ہےیوں کل ملاکے علم کے سولہ اقسام بنتے ہیں
ان میں سے دو علوم ایک
کانام ہے 'فراست صوری' اور 'فراست معنوی'۔
فراستِ صوری کے بارے
میں سرورکائنات محمد مصطفیٰ ؐ فرماتے ہیں کہ تم چین جاکر بھی علم حاصل کرو
حالانکہ چین میں کوئی
دین نہیں کوئی اسلام نہیں ہے۔یا کوئی عالمِ ربانی یا اس طرح کے روحانی علوم کا
منبع تونہیں ۔
یہ علم ِ صوری ظاہری علم ہے ۔تم
اسے حاصل کرو تو(کسبی )علم کا ماہر بن سکتاہے۔یہ سرورکائناتؐ نے ارشاد فرمایا ہوا
ہے
فلسفہ والے کہتے ہیں۔خودی
کوکربلند اتنا کہ ہرتقدیر سے پہلے ۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا۔
اس(علم صوری) کیلئے بھی مشقت
چاہئے مشقت ۔علم صوری کیلئے بھی مشقت درکار ہے۔
ابھی عبدالقدیر
خان(ڈاکٹر) کوئی ولی ،پیغمبر یا رسول تونہیں ہے لیکن ایک فراست ولا آدمی لازمی ہے۔
اس علم کی حصول کیلئے ہماری قوم
کو چاہئے کہ اس طعنے کو یاد رکھیں کہ پہلے لوگوں نے ہمیں خالصہ سرکار قرار دیاہے۔
خالصہ سرکار کیلئے کیا چیز
دواہے؟جیسے حکومت کی بقاء کیلئے ایٹمی طاقت درکاہےاسی طرح ہمیں اپنی بقا کیلئے
ظاہری علم کی ضرورت ہے
اسکی حصول کے بغیر آج ہماری بقا
ءمشکل ہے۔آج ہمارے علماء کُھل کُھل کے بول سکتے ہیں۔
آج کوئی سترہ گریڈ ،
کوئی اٹھارہ اورکوئی انیس گریڈ کا آفیسر ہے۔کوئی وفاق المدارس کوئی تنظیم المدارس ہےاور کوئی فاضل ہے
یہ سب موجود ہونے کی وجہ سے آج ہمیں
کسی پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں۔
تاہم ان(علماء)کو چاہئےکہ اوامرونواہی میں وہ ''عامل صمدانی''یعنی
بے باک ہو۔
صمد یعنی بے نیازی کی صفت موجود
ہو۔یہ دنیاداری میں معیشت مضبوط نہ ہوتو حاصل نہیں ہوسکتی اور کھل کے تبلیغ نہیں
کرسکتے
اگر میں ایسا کہوں گاتوفلان چیز
سے محروم ہوجاؤنگا۔فلان چیز روکےگا۔فلان خفا ہوگا۔کل کو یہ ہوگا۔وہ ہوگا
اس طرح کے تصورات جب دل میں آتاہے
تو بے نیازی ختم ہوتی ہے۔باب امرونواہی میں
شرائط موجودہے۔''عامل صمدانی '' ۔
وہ عمل کرکرکے خدائی
صفتِ صمدیت کا حامل ہو یعنی بے نیا ز اور استغناکی کامل صفات کا حامل ہو۔
اس لئے یہ ظاہری علم یا فراست
ِصوری کے لئے اقبال فرماتے ہیں۔
خودی کوکربلند اتنا کہ ہرتقدیر سے
پہلے (اس قدر بے نیاز بن جاؤ)۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا۔
آپ اتنی مشقت کرو،اتنا تکلیف
برداشت کرو کہ خدا خود تم سے پوچھ لے گا کہ تو کیا طلب کرتاہے؟
آج نوجوانوں سے اس
لئے مخاطب ہوں کیونکہ پہلے آپکی ناکامی سے صرف آپکے والدین شرمندہ ہوتے تھے۔
آج پوری قوم ہم سب شرمندہ ہوتے ہیں
لہٰذہ خدا کیلئے ہمیں شرمندہ نہ کریں۔علم میں کوشش کرو پڑھو آگے اور پڑھو
معنوی کیسا تھ ساتھ صوری بھی۔(یعنی
علومِ ظاہری اور باطنِ دونوں کے حصول میں کوشاں رہو)۔
جہاں تک معنوی (علوم )کا تعلق
ہے اسکے لئے رب ارشاد فرماتاہے ۔٭واعبد
ربک حتی یاتیک الیقین٭
خوب بندگی کرو۔اس کیلئے بھی مشقت
درکا ہے۔خوب بندگی کرو یہاں تک کہ یقین کی نعمت حاصل ہوجائے۔
خداسے ملاقات کی یقین
کی حد تک ۔لقائے الٰہی کی منزل تک بندگی کرو۔
اُس یقین کی کیفیت تک
جہاں٭ابدانھم فی الدنیا وقلوبھم فی الاخرۃ٭
بظاہرتم دنیا میں ہو مگر تمہارادل آخرت میں ہو
٭وباالاشباہ فرشیون و
بالارواح عرشیون٭وہ بظاہر روئے زمین پر موجود ہو۔لیکن درحقیقت وہ عرش کے مکین ہو۔
٭لی مع اللہ وقت٭خدافرماتے
ہیں نہ کوئی مقرب رسول یا رفرشتے بیچ میں نہیں آسکتا۔وہ براہ راست خداسے رابطے میں
ہوتاہے۔
پہلے وہ محبان(رب کو یاد کرنے
والا)تھا۔اب بنا محبوبان (رب خود اسکو یاد کرے)۔
پہلے تھا٭فالذکرونی٭اب بنا٭اذکرکم٭
پہلے اس نے مجھے یاد کیا تھا اب خدا فرماتے ہیں کہ خود خدا اس بندے کو یاد
فرماتا ہے ۔اس منزل پر پہنچتاہے۔
اس کیلئے بھی مشقت درکار ہے۔اس کیلئے
قرآن کی شرائط یہ ہیں۔
اب فقہ الاحوط کی
شرائط بیان کرنے سے پہلے اسداللہ الغالب
حضرت علیؑ کا ایک واقعہ بیان کرتا چلوں ۔
آخری عمر میں لوگوں
نے عرض کیا۔کہ آپؑ کا وصی کون ہے۔
شرائط پر پورا اُترنا لازمی ہے یا
نہیں حضرت علیؑ سے معلوم کریں۔
سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ؐفرماتے
ہیں۔ میرا حکم قرآن کے مطابق آئے توٹھیک ورنہ ٭فانتھو٭چھوڑدو
نہج البلاغہ میں حضرت علیؑ فرماتے
ہیں ۔ میرا حکم قرآن کے مطابق آیاتو ٹھیک ورنہ اسے چھوڑدے
اگر حضرت علی ؑ سے منسوب کوئی
کلام قرآن سےمطابقت نہ رکھےاور اسے نہ
چھوڑےتو کیا ہوگا۔
تو وہ حضرت علیؑ کے
حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔
رسول کریمؐ سے منسو ب
کوئی حکم (حدیث ) قرآن کے مطابق آئےتو ٹھیک ورنہ ٭فانتھو٭اسے چھوڑدو
اسکا چھوڑنا لازم
ہےاگر نہ چھوڑے تو رسول ؐکے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔
ہمارا محور قرآن (اول محور)، فقہ
الاحوط، اصول اعتقادیہ اور دعوات صوفیہ ہیں۔یہ ہمار ےمحور ہیں۔
اس محور میں رہنا چاہئے اگر کوئی
ہٹ جائے تو وہ مرکز سے ہٹ جائے گا۔پھر وہ سرگردان ہی رہے گا۔
ہر ایک اس محور میں
پھرے تو کامیابی ہے۔اور ان میں سے اولین محور ومرکز قرآن پاک ہے۔
اسی لئے سرورکائنات ؐ نے فرمایا میرا
حکم (مجھ سے منسوب کوئی حدیث) قرآن کے مطابق آیا تو ٹھیک ورنہ اسے چھوڑدو
حضرت علیؑ نے فرمایا( میرا کوئی
حکم قرآن سے مطابقت نہ ہو) تو چھوڑدے۔
آخری عمر میں سب جمع
ہوکر آپؑ(حضرت علیؑ) سے عرض کیا۔یا علیؑ آپکا وصی کون ہے۔
تو آپؑ فرماتے ہیں کہ میں کسی کو
وصی نامزد نہیں کر وں گا۔
میں اپنا وصی اس لئے نامزد نہیں
کروں گااگر میں نے وصی نامزد کیا۔
تو ہرکوئی اپنے بیٹوں کو شرائط پر پورے اُترے بغیر نامزد کرنا
شروع کریگا اور نتیجتاً اسلام کی تباہی ہوگی۔یہ اسد اللہ الغالب حضرت علیؑ کا
فرمان ہے۔
یوں اسلام برباد ہوگا اور میں(حضرت
علیؑ ) اس کیلئے تیار نہیں ہوں۔
تو لوگوں نے پوچھااگر ہم حضرت
امام حسنؑ کو نامز د کردیں تو آپؑ (حضرت علیؑ) نے فرمایا مجھ سے بہتر
ہے۔
حضرت علیؑ کے فرمان
پر غور کریں ۔ کیا انکا فرمان جھوٹ ہوسکتا ہے؟؟۔کہ میں اپنا وصی نامزد نہیں کروں
گا۔
لوگوں نے اپنے بیٹوں کو شرائط پر پورے
اترے بغیر نامزد کیا۔اسی لئے ہمارے دین کو زوال آیا۔
آج ہمارے ہاں زوال اسی لئے آیا ہم
نے شرائط کو چھوڑ کر ذات پات ( اقربا پروری )کے نظام کو ترجیح دی۔
اگر ہم اپنی تاریخ دیکھیں تو شاہ
سید علیہ الرحمہ نے برہان الدین ہمدانیؒ کو خلیفہ بنایااورانہوں نے شاہ قاسم فیض بخشؒ
کو نامز د کیا۔
کسی نے بھی بغیر شرائط کے(جانشین)
نامز د نہیں کیا(حالانکہ شاہ قاسم ؒ شاہ سید ؒکے بیٹےتھے)۔
جب اس سے ہٹا تو
ہمارا مذہب برباد ہونا شروع ہوگئے۔زوال کی ایک وجہ یہ ہے۔
زوال کی دوسری وجہ ۔
فقہ الاحوط میں شامل تین ابواب کو یکسر نظر انداز کردینا ہے۔
یہ تین ابواب ہیں:باب لاعتکاف،
باب الجہادالاکبر(باب جہاد)اور با ب وکالت شامل ہیں۔
ان ابواب سے واضح
ہوتاہے کہ عالم ملک سے عالم جبروت، جبروت سےملکوت
،ملکوت سے عالم لاہوت تک الی لاہوت تک
بالترتیب منوب اپنے
نائب کو لے جائے اور اُس منزل تک پہنچانے کیلئے مہارت پیدا کرنے اور تربیت فراہم
کرنے کے مرکز کو کہتے ہیں اعتکاف
جب تک ہم ان تین
ابواب کو زندہ نہیں کریں گا۔تب تک نہ آپ کسی کی اصلاح کرسکتےہےنہ
کسی منزل پر پہنچا سکتےہے۔
اور یہ دعویٰ کرے کہ زمانہ رسولؑ یا زمانہ علوی یا زمانہ غوث
المتا خرینؒ زندہ کرے گاکہے تو بالکل غلط ہے وہ محض دعویٰ رہ جائے گا
جب تک ان تین ابواب کو (انکی روح
کے مطابق )زندہ نہ کرے۔
جب حضرت علیؑ نے فرمایا میں اپنا
وصی نامزد نہیں کروں گا تو لوگوں نےکہااگرہم حضرت امام حسنؑ کو نامزد کریں تو ؟؟
تو آپؑ نے فرمایا مجھ سے بہتر ہے۔(تمام شرائط کا حامل اور کامل
ہے)۔
آپؑ کا قول کیا جھوٹ
ہوسکتاہے؟؟ بعدمیں رشید ابن رشید نامی
کتاب میں (تمام شرائط کو پامال کرکے) لایا ہوا ہے
حضرت خاتم الانبیاءؐ
سے حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان ، حضرت عثمان سے معاویہ ، معاویہ سے
یزید
جبکہ حضرت امام حسینؑ کو باغی
قرار دیا ہوا ہے ۔اب آپکا کیا خیال ہے
ظاہری اور بغیر شرائط کے آیا تو کیا ہوگا؟؟
یزید جو فرعون او رنمرود سے بھی
ناپاک ہے۔(یہ سارے بکواسات)رشید ابن رشید نامی کتا ب میں لایا ہواہے
امام حسین ؑ کو باغی جبکہ یزید کو شہزادہ ، امام اور خلیفہ سب کچھ قرار دیا ہوا ہے ۔
اس کتاب کے جواب میں صائم چشتی نے
''شہید ابن شہید''کے نام سے کتاب لکھی۔
حسین ؑخدائی خلافت کا
وارث ہونے، رسولؑ کا وارث ہونے،ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرکا وارث ہونے
علیؑ کا وارث ہونے۔ فرمان رسولؐ
کے مطابق٭الحسین منی وانا من الحسین٭
حسینؑ کے ولی
ہونے،امام ہونے ، خلیفہ ہونے
کے بارے میں واضح دلائل دیئےہیں
رشید ابن رشید نامی کتاب کے جواب میں شہید ابن شہیدکے نام سے کتاب
صائم چشتی نے لکھا ہے۔
خیر
عموماًمیں کتابوں کا نام نہیں
لیتا لیکن یہاں ضرورت کے مطابق نام لیا ہے(رشید ابن رشید کے جواب میں لکھا شہید
ابن شہید)۔
اب ہمارے قوم کو غو رکرنے کی ضرورت ہے ۔اسی طرح مفتی بننے کے اپنے شرائط ہے ۔ہر ایک کیلئے شرائط ہیں۔
فقہ احوط میں 53
ابواب میں ہرایک کے لئے اپنے اپنے معیار کے مطابق
ا پنی ا پنی شرائط ہیں۔بغیر شرائط کے کوئی چھٹکارا نہیں۔
یہ میں مثال دے رہا
تھا حضرت علیؑ کے جانشینی کے معاملے میں آپؑ کا پیغام تھا۔
جب اصحاب نے کہا پھر ہم کیا کرے
؟؟ اگر ہم امام حسنؑ کو قائم کریں تو؟؟
آپؑ نے فرمایا ۔اس معاملے میں تم
خدا اور رسولؐ سے پوچھ لو ۔ رسولؐ سے پوچھ
لوخدا سے پوچھ لو قرآن سے پوچھ لو
فرمان رسولؐ سے پوچھ لواگر شرائط
کے مطابق آتا ہوتو ان کو ضرور قائم کرو ورنہ بے شک امام حسنؑ کو بھی قائم نہ کریں
اسی لئے ٭فان تنازعتم٭اگر تمہارے
آپس میں اختلافات ہوتو٭فرود٭تم پھیرجاؤ
٭الی اللہ٭ خدا کی طرف ٭ورسولہ٭اوررسول
کی طرف پھیرجاؤ۔
دیکھو اپنا بیٹا ہوتے ہوئے ، کامل
شرائط کا ہوتے ہوئے خود قائم کرنے کے بجائے خدا اور رسول سے رجو ع کرنے کا حکم دیا۔
شرائط پر پورا اُترتے ہیں یا نہیں
یہ دیکھے اگر اُترتے ہیں تو قائم کریں ورنہ نہیں ۔ یہ تھا اسد اللہ الغالب علیہ
السلام
اللہ اوررسول کی طرف
رجوع کرنے کا حکم دینے والے علی ؑکے دعویدار ، علی کا محبین ،علی کے محبت کے دعویدار
علی ؑ کا مودۃ والے
مختلف الفاظ میں علیؑ کو پکارنے والے آج (شرائط کے بجائے ثانوی اُمور کو ترجیح کیوں
دیتے ہیں)۔
علی ؑ کیا تھا ؟ پھر بعد میں
شرائط پر روشنی ڈالتا ہوں دیر تو نہیں ہورہا ابھی 3بجے ہیں۔
علی ؑ کو کیا کہا ؟؟ علیؑ کو یعسوب
الدین کہا جاتا ہے ۔دین کا یعسوب ۔عربی میں یعسوب کسے کہتے ہیں۔
عربی میں یعسوب شہد کی ملکہ مکھی
کو کہتے ہیں۔اس ملکہ کا کیا کمال ہے؟؟
وہ تین میل کے اندر گندی جگہوں پر
بیٹھنے والے مکھیوں کو سونگھ لیتی ہے پہچان لیتی ہے
اوراپنی فوج بھیج کراس آلودہ مکھی
کو وہیں مار دیتا ہے
اسی لئے علیؑ یعسوب الدین (دین میں
خالص اور غیر خالص ملاوٹ کو پہچاننے والا اور دین سے ناپاکی کو دور کرنے والا)اور
امام ا لمتقین ہے
آج دین میں (ناپاک
عقائد ) لا کے کیا کہتے ہیں ؟اسلام فاسد تک
کہتے ہیں (نعوز باللہ )۔
اسی لئے وہ لوگ (جو اسلام کو فاسد کہتے ہیں)کل کو جب مرجائے تو
والسلام فاسد کہو ولاسلام دینی کو ترک کرو۔
کس منہ سے ولاسلام دین
کہو گے ۔اسلام کو تم نے فاسد قرار دیا ہے۔
اور کہتے ہیں اسلام کو فاسد کہنے
پر فقیر گروپ ، علماءاور فقیرکے مریدوں نے فتویٰ جاری کیا ہے ۔اس نظرئیے کے خلاف ہیں۔
ہم نے فتویٰ کیوں جاری
کیا ہے؟؟ (ذرا آپ بھی غور کریں)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے٭الیوم اکملت
لکم دینکم ٭ (دین کو کامل فرماتے ہیں)۔
اُس سے پہلے رسولؐ سے
کیا فرماتے ہیں ۔ اے رسول پہنچادے جوآپ ؐ پر اُترا ہے رب کی طرف سے اگر ایسا نہ کیا
تو گویا رسالت کا حق ادا نہیں کیا
اور اھر ہمارے بزرگ سجدے میں جاکے
فرماتے ہیں ۔٭ ورضینا باللہ تعالیٰ ٭اے پروردگار ہم بھی راضی ہیں۔اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر
ہم راضی کیوں ہیں؟؟٭وبالاسلام دینا
٭ہمارا دین اسلام ہونے پر ہم راضی ہوئے
٭وبمحمد نبیا ً ورسولاً٭ ہمارے
خاتم الانبیاء خیرالوریٰ محمدؐ نبی اور رسول ہونے پر ہم راضی ہوئے
٭ وبمحمد نبیا ً
ورسولاً٭وبالقرآن کتاباً٭ہمار ی کتاب قرآن ہونے پر ہم راضی ہوئے۔
آج کیا ہوا ہے؟؟ ان کے نزدیک قرآن آخرلزمان (حضرت
امام مہدیؐ) لیکر آئیں گے (نعوز باللہ)۔
اس طرح تو (ان کے حساب سے)امام آخرا لزمان محافط دین اور قرآن
ناطق تو خیر دور کی بات ،حافظ قرآن بھی نہیں (نعوذباللہ )۔
حافظ کوقرآن کو (دیکھ)کے پڑنے کی
ضرورت ہی نہیں پڑتا جبکہ اخر زمان کے پاس کوئی قرآن ہے اسکی ضرورت پڑے گا۔ (نعوذ باللہ)۔
یوں اس طرح تو آخر لزمان اتنا رنگین
ہوا کہ حافظ ہی نہیں ہوا(نعوذ باللہ)۔
قرآن ناطق کیلئے قرآن صامد کی کیا ضرورت ہے ۔(اخرلزمان
امام مہدی ؑ قرآن ناطق ہے)۔
آج اُن کے مطابق اس طرح کے کافرانہ عقائد چھوڑے تو ٹھیک (نہیں توہم
فتویٰ ضرور بہ ضرور لگائیں گے)۔
سیاحانِ عالمِ معرفت۔۔۔سیاحانِ عالمِ
معرفت کسے کہتے
ہیں؟؟
سیاحانَ عالم معرفت ۔۔رات کے ایک
بجے سیاح گروہ(فرشتے) آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔
وہ دو انوارسا تھ لے آتے ہیں ۔اور
دو اسماء ساتھ لے آتے ہیں۔۔وہ دو
انوار
٭٭قد جا ئکم من اللہ نور و
کتاب مبین ٭٭بتحقیق میں نےاتاری ایک نوراورکتاب مبین
ایک نورنورِمحمد ؐ سے ہے۔اورایک
نورقرآن سےہے۔
دو اسماء لے آتے ہیں ایک کا تعلق واجب الوجود سے ہے،دوسرے
کا تعلق نورِ محمدؐ سے ہے۔
اُس نور کیساتھ اس کی نشانی کے طور پر وہ ایک بادِ نسیم بھی لے آتےہیں۔
.٭٭ والمرسلت عرفا٭٭قسم
ہے اس نرم نرم چلتی ہوئی ہواؤں کی
اس بادنسیم کیساتھ لوگ جاگنا شروع
ہوجاتے ہیں۔مرغ چہچہانا (آواز نکالنا) شروع
کرتے ہیں۔
اُس ہوا کے ساتھ جو بیدار ہوئے اس
کا شمار زندوں میں ہے اور جوسوئے پڑارہے تواسکا شمار مردوں میں ہے
اُ ن دواسماء اور اُن
دوانوار کا اُن سیاح فرشتوں سے حاصل کرنے والے کو کہتے ہیں سیاحانِ عالمِ معرفت
یہ(سیاحانِ عالمِ معرفت)ابن بطوطہ
کو نہیں کہا جاتا ہے اور نہ کولمبس کو کہتے ہیں اور نہ مارکو پولو کو کہا جاتا ہے۔
اُس سیاح ، سیاح
گروہ کو کہا جاتا ہے سیاحانِ عالمِ معرفت
ا س کے بعد (ولایت کے
تین درجے ) قطب التکوین۔۔ قطب اور غوث ،یہ
تین آدمی ہوتے ہیں۔
وہ لوگ عشق (دیدارِالٰہی)کی
انتہائی کیفیت میں پہنچ کر کیا ہوتاہے۔
اُس میں ایک عشق میں اس
قدر فنا ہوجاتاہے کہ اس کا عشق ٹھنڈا نہیں ہوتا۔
بالکل بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ
لگاتارمحویت کے عالم میں رہتا ہے۔اسے''قطب التکوین ''کہا جاتا ہے۔
ہمار ی عام اصطلاح میں اسے مجذوب کہتے ہیں اس کی ڈیوٹی
بلاؤں پر ہوتا ہے
اس کے بعد قطب السلوک ہے۔قطب
السلوک وہ ہے جو عشق کی انتہائی کیفیت میں مدہوش نہیں ہوتے
بلکہ یا منتھا کل شکویٰ کے مصداق
خدا سے شکٰوہ شکایت کرنے لگتا ہے
وہ قطب السلوک سے ہے۔ انکی ڈیوٹی
تبلیغِ اسلام(اسلام پھیلانے)پر مامورہیں۔
پھر ہے غوث۔ غوث ذکرخدا میں مستغرق ہوکر مدہوشی کے بجائے حالت مراقبہ میں چلا
جاتا ہے
سر نیچے کرکے دنیاوی خیالات میں
نہیں بلکہ شانِ خدواندی کو جی بھر کر دیکھنے
کا نام ہے مراقبہ
اس حال کے حامل ولی
کو کہتے ہیں غوث۔ غوث حق اور باطل میں امتیاز کر نے کی اٹل ڈیوٹی پر مامور ہوتا ہے۔
غوث تین ہوتے ہیں۔ غوث ،غوث اعظم
اورغوث المتاخرین۔
غوث المتاخرین واحد وہی شان (شاہ
سید محمدنوربخشؒ )کے علاوہ اور کوئی نہیں
اس کے بعد فقہ کی رو
سے اسکی (ولایت ) کی شرائط کیا ہیں؟
فقہ میں اطوار سبعہ قلبیہ ، انوارِ متنوعہ الغیبیہ۔سات انوار کا نازل
ہونا، سات حجابات کا ہٹنا۔
پھر نوربین (نور کا نظرآنا) بن
جاتاہے۔پھر نوردان(نورکو محسوس کرنا)بن جاتاہے۔
اور پھرجب یہ انوار
اس کی ذات میں منتقل ہوجائے تواسےنوربخش (نور کو دوسروں میں منتقل کرنا)کہا جاتاہے۔
نوربخش (شاہ سید محمد
نوربخشؑ ) کوکیا ان کے والد نے رکھا تھا یا کسی اور نے اپنی طرف سے رکھا ہے؟؟
کسی ماں نے اپنے بیٹے کا نام رکھا
یا کسی باپ نے؟؟یا پھر کسی مرشدنےنام دیا؟
آمدہ از غیبِ نامش نوربخشؒ۔۔۔بودچوں
خورشید ذاتش نوربخشؒ
ان الشمس یطلع من قرن شیطان۔۔یہ دین
کا آفتاب عالم ہے۔
نجم الدین کبریٰ ؒ کے شاگرد احمدؒ
اور احمدؒ کے شاگرد شمس تبریزؒ کی (مثال کو دیکھ لیں)۔
شمس تبریزؒ دین کا آفتاب عالم کیا
کرتا ہے؟ یہ شمسؒ (شمس تبریز)اُس سورج کو کہتا ہے۔آج ضرورت ہےاب اُتر جاؤ۔
مجال ہے وہ سورج نہ اُترے۔یوں
سورج اُس (شمس تبریز ؒ) کے حکم پر اُتر جاتاہے۔
یہ طاقت کہاں سے لاتے ہیں؟شرائط
کے مطابق اسی اعتکاف سے لاتے ہیں۔اس منظرسے لاتے ہیں۔
اطوارِ سبع قلبیہ ، انوارِ متنوعہ
غیبیہ
شروع شروع میں سفید
نور کا ظاہر ہونا جو غفاریت کی خصوصیت کا حامل ہے۔
سرور کائناتؐ کی ارشاد کے مطابق
وہ خود بخشش کا حامل ہو اور دوسروں کو
بخشش کرنے کی صلا حیت کا پیداہونا۔
پھر دوسرے نمبر پر سبز نور کا
ظہور ہونا جس میں قدوسیت کی خصوصیت ہیں۔
یعنی خود پاک ہو
نااور دوسروں کوپاک کرنے کی صلاحیت کا پیدا ہونا۔
پھر سُرخ نور کا نزول ہوتا ہے۔جس
میں قہاریت کی خصوصیت ہے۔
خودی میں قوتِ یزدانی
پیدا ہونااور دوسروں میں پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہونا۔
اس کے بعد نیلے رنگ کا نور آتا ہے۔
پھر وہ نیلے رنگ کا نورجبروت سے اسکاتعلق
وابستہ کردیتاہے۔
ابتدائی عالم ملکوت
کے بعد اب اسکا تعلق جبروت سے ہوچکا ہے۔
حضور اکرمؐ کے فرمان کو اقبال نے
اپنے شعر میں یوں بیان کیاہے۔
غفاری و قہاری وقدوسی و جبروت۔۔یہ
چار عناصر سے بنتے ہیں مسلمان۔
اب وہ ایک مکمل مسلمان ہوگیا۔اس
کے بعد نور کی مزید تفصیل میں نہیں جائیں گے۔
پھر اُسکے بعد
مکاشفات کشف کی جمع ہے ۔شروع شروع میں کشف القلوب (دلوں کاحال معلوم ہونا)۔
اس اعتکاف کے چلانے
والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ کشف القلوب یعنی
دلوں کے کیفیات کا جاننے والا ہو۔
ذکرِ قلبی کی توفیق
نصیب ہوتصفیہ قلب کرنے کا اہل ہو۔ابھی تزکیہ نفس باقی ہے پہلے تصفیہ قلب کرے۔
اور دوسرے نمبر پر تصفیہ قلب
(دلوں کی پاکیزگی کیساتھ )اورذکرِ قلبی کی توفیق پیداکرنا۔
یعنی کشف القلوب دلوں
کاحال نظر آنا اور اس کے مطابق ہدایت جاری کرنا یامنع کرنا۔
کبھی نوافل کی تلقین
کرنااورکبھی ذکر کی یعنی حال کے مطابق انہیں
مختلف عبادات میں مشغول رکھنااس کو کہتے ہیں پیرِ طریقت
پیر طریقت کو استاد بناکےان کو(
مختلف علاقوں میں) مامور کرنے کا اہل ہواس کو کہتےہیں پیرانِ طریقت،پیرانِ پیر
جب تک طریقت کی یہ
ابتدائی منزل طے نہ ہو ، وہ عالمانِ شریعت تو ہوسکتا ہے لیکن پیران طریقت نہیں
اگر کوئی دعویٰ کرے تو غلط ہے۔وہ عالمانِ شریعت ہے۔عالمانِ شریعت
پھر پیران ِ طریقت، پھر مرشدان حقیقت
پھر اُسکے بعد سیاحانِ عالمِ معرفت
لہٰذہ اُس کیلئے مکاشفات یعنی کشف القلوب کی صلاحیت
کا حامل ہو۔ اسی کو کہتے ہیں پیر طریقت
لہٰذہ پیر کہنے سے آپ سر پکڑ کرنہ
بیٹھ جائیں۔
مرشد کسے کہتے ہیں ?۔ اس بارے میں چند الفاظ بول کرمیں دوبارہ اپنے موضوع کی طرف واپس آؤں گا۔
مرشد اسکو کہتے ہیں ۔ ہر
انسان کے اندر ایک گردشی روح موجود ہوتی ہے ۔ دوران گردش جب اس روح کی ملاقات شیطا
ن سے ہوجاتی ہے
تو وہ ناچنے لگتے ہیں۔شیطانی
گروہ کی صحبت کے دوران وہ گانے بجانے کی طرف مائل ہوجاتا ہے ۔
وہ گنگنانے لگتا ہے۔
وہ کوئی نہ کوئی اوچھی حرکت کرتا رہتا ہے۔
اس کے ذہن میں طرح طرح کے فاسدہ اور فضول خیالات آتے رہتے ہیں۔
ان حالات و
خیالات کے شکار انسانی روح کو شیطان سے الگ کرکے اللہ کی طرف لوٹانے والی ہستی کو
کہتے ہیں مرشد
حقیقتاً مرشدکی تعریف ایک
ہی جملے میں یہ ہے اسکو کہتے ہیں مرشد
فقہ میں مکاشفات( کشف کی جمع ) یعنی کشف القلوب ( دلوں کے حال سے واقف ہونا)کا ذکر ہے ۔
اس بارے میں فرمان الہٰی ہے ٭فالھمھا
فجورھا وتقوٰھا٭( پھراس کی بدی اور اسکی نیکی
اُس پر الہا م کردی )۔
یہ چیز سو ئے پڑے رہنے سے ملنے والی نہیں ہے۔
بیدا ر رہنے کی تکلیف سے بچنے کی خاطر کچھ لوگ تزکیہ پر اعتراضات اٹھاتے ہیں۔
حالانکہ ہندو سکھ اور یہودو نصاریٰ بھی(اپنے اپنے مطابق) تزکیہ
کے قائل ہے۔کوئی بھی (تزکیہ کے خلاف نہیں
ہے)۔سوائے دہریہ فرقےکے
سوائے دہریہ فرقے کے پوری عالم انسانیت میں تزکیہ کے کوئی بھی خلاف نہیں لہٰذہ
آپ (تزکیہ کے خلاف ہوکر ) دہریہ فرقے کے پیرو کار مت بنیں۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر وں میں سے
خاتم الانبیاءؐتک ۔خاتم الانبیاءؐ
سے غوث المتاخرین ؒ تک
سب نے تذکیہ کے بارے میں درست رہنمائی فرمایا ہے ۔خدا کی قسم منع کبھی نہیں
فرمایا ۔
سرورکائنا ت ؐ کے دور
میں بھدش بھی تذکیہ کو مانتے تھے ۔ مکہ کے
سارے بھدش (بت پرست)جب مسلمان ہوگئے۔
توحضرت عمرنےکہا یارسولؐ میں نے
(قبول اسلام سے قبل ) لات و منات کے آگے دس
دن اعتکاف کی ا نذر مانی ہوئی ہے۔اب میں کیا کروں؟؟
اب سرورکائناتؐ کو دیکھیں کہ کیا
فرماتے ہیں؟ تاریخ کو پڑھیں اگر آپ کے پاس علم ہوتاہے تواس کا اعتراف کرتا ۔
لات و منات کے سامنے نذر اعتکاف کرنے
کے سوال کےجواب میں رسولؐ فرماتے ہیں۔ آپ
سے یہ نذرچھوٹے گا تو ہرگز نہیں۔
ریاضت کی مشقت کو اس
قدر محبوب رکھتے تھے فرما یا آپ سے یہ نذر چھوٹے گا نہیں ۔
مگر پہلے آپ نے لات ومنات کے سامنے اعتکاف میں بیٹھنا تھا
مگر اب اللہ کے حضور میں بیٹھ کر نذر پورا کرنا ہوگا لیکن چھوٹے ہرگز نہیں۔
ارے سرورکائناتؐ کی کیفیت
اور ان کے فرمان پرغور کریں
خدا کی قسم کسی انسان سے ضد کی خاطر اللہ اور رسول کے حکم سے منہ مت موڑیں۔ان کے خلاف مت ہوجائیں۔
مکاشفات کشف کی جمع ہے
کشف القلوب یعنی دلوں کا صاف صاف نظر آنا۔
اسکے بعد کشف القبو ر
یعنی مردوں سے ہم کلا م ہونا۔پھر کشف الشہود یعنی پتھر،لکڑی،آگ اور ہوا سے ہم کلام ہونا۔
دوسروں فرقوں کے ہاں
وحدت الشہودی ہے جبکہ ہمارے ہاں تو کشف الشہودہے۔
فلسفہ اور منطق کا
علم رکھنے والے وحدت الشہود اور کشف الشہود کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
کہ یہ کشف الشہود اور وحدت الشہودی
کی حقیقت کیا ہے۔یہ کیاہوتاہے؟؟
علم کلام والوں نے معرفت الٰہی (پہچان خداوندی )کیلئے وحدت شہودی
،وحدت وجدانی ،وحدت وجودی
وحدت صوری ، واجب الوجود،ممکن
الوجود،ممتنع الوجودجیسے اصلاحات کا سہارا لیا ہے۔
جبکہ میرے شاہ سید ؒ نے اکائی دھائی میں اصول اعتقادیہ میں ان نظریات کو
اس قدر سہل اور آسان انداز میں سمجھایا(کہ
تمام فلسلہ ومنطق والے دنگ رہ گئے)۔
اللہ کے فضل سے شاہ سید ؒ کے اپنے دست مبارک سے لکھا ہوا اصول
اعتقادیہ کا ایک قلمی نسخہ
شام کے ایک میوزیم
سے ہمارےایک بندے کو ملا ہے۔
اللہ کے فضل سے اس میوزیم
سے اصول اعتقادیہ کا یہ قلمی نسخہ ہمارے کسی بندے کو ملاہے
اصول اعتقادیہ جو اکائی دھائی میں لکھا ہوا کتاب ہے میں انتہائی
خوبصورت انداز میں واجب الوجود کے نظرئیے کو سمجھایا۔
اسکے بعد دوسروں کے ہاں وحدت الشہور ہےلیکن ہمارے ہاں کشف الشہود ہے
پھر مشاہدات یعنی نظر آنا جو مشاہد ہ کی جمع ہے۔ ۔ازل سے ابد تک صاف صاف
نظر آنا۔
پھر صرف مشاہدہ پر
اکتفا نہیں کیا بلکہ معائنات بھی عنایت فرمایا۔
معائنات معائنہ کی جمع ہے جس کا مطلب ہے معائنہ کرنا چیک کرنا ۔ چیک
کہاں کرنا ہے؟؟
اگر وہ مرشد ہےتو
عالم لاہوت کا معائنہ کرنا ہے۔کیونکہ یہ
سار ا نظام وہیں سے چلتا ہے۔
اور دکھایا بھی جاتا
ہےجن کا معائنہ کرناہوتا ہے۔ پہلے
شاگردوں کا معائنہ کیا جاتا ہے ۔
پھر وہاں(عالم لاہوت) معائنہ کرتا ہے۔
دوسرے نمبر پر اگر وہ ولی ہےتو کسی
کام پر ڈیوٹی دینا ہوتا ہے۔جیسے کہ سبزہ ، ہدایت وغیرہ یا کسی اور چیز پر
انہیں صرف اپنے متعلقہ شعبے کے
بارے میں بتایا جاتا ہے۔
جبکہ اگر وہ ولی مرشد ہے تو ان تمام چیزوں کا معائنہ کرنا ہوتا ہے۔
خیر اس بارے میں کہ عالم لاہوت کیا
ہے؟؟ پھر کسی وقت تفصیل سے بات کروں گا۔۔
اسے کہتے ہیں معائنات جو معائنہ کی
جمع ہے ۔ یعنی چیک کرنا تحقیق کرنا۔
معائنہ میں ایک کام شاگردوں
کا معائنہ کرناہے یہ دیکھنا کہ کہیں
شاگردوں کو ہاضمہ کی یا پھر صحت سے متعلق کوئی مسائل درپیش تو نہیں
وہ کہیں برے شیطانی اثرات کا شکار
تو نہیں شاگردوں کو کون سے مسائل درپیش ہیں ۔ایسی باتوں کا پتہ لگانے کو کہتے ہیں
معائنہ۔
معائنہ میں ایک شعبہ طب کا بھی ہے یعنی ڈاکٹری قسم کی۔
ہمارے تمام بزرگان دین کے پاس
یہ علم ہوا کرتا تھا۔ رسول کریمؐ کی ہستی کو دیکھیں ۔امیرکبیرؒ کی ہستی کو دیکھیں۔
حضرت لقمان حکیمؑ کی
ہستی کو دیکھیں ۔ بیا لوجی کی بنیاد ہی حضرت لقمان ؑ نے رکھی ہے
خیر میں موضوع سے ہٹ گیا تھا
دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔یعنی
معائنات جو معائنہ کی جمع ہے
پھر تجلیات کی باری آتی ہےجس کی
تشریح نہیں کرونگا۔ پہلے بیان کردہ تمام نورنورِ صفات ہیں۔اب نورِذات کاذکر ہوگا۔
ذات صفات یعنی خدا کے ذات اور
صفات میں وہ منسلک ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ ار شاد باری
تعالیٰ ہے ٭رضی اللہ عنہ ورضو اعنہ ذالک
لمن خشی ربا٭
سورہ بینہ میں خدانے بندے کو خو د
کےاورخود کو بندےکے قریب کیا ہےیعنی میں
اس سے خوش اور وہ مجھ سے خوش
لفظ مَن کا مطلب کوئی بھی بندہ ہوسکتا ہے ۔ (آیت) اس آیت میں شریف
میں تخصیص(مخصوص) سے کام نہیں لیاگیاہے۔
اس مو ضوع کو یہی ختم ا ب علیؑ کےوارث ہونے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
علیؑ یعسو ب الدین ہے۔
یعنی گندگی کو(یعنی دین میں حلال
حرام، پاک ناپاک، خالص ناخالص، جائز ناجائز کو)ہزاروں میل دور سے پہچاننا۔
.اسی لئیے آپؑ نے سرور کائنات ؐ سے پوچھا" یا سرور کائناتؐ آپؐ
کے وارث کیسے ہونگے؟" ۔
آپؐ نے فرمایا میرے وارثین کی
مثال اس صراحی کی طرح ہے جس میں پہلے اخروٹ بھرا جاتا ہے۔پھر دیکھتے ہیں کہ کچھ
اور آسکتا ہے؟
ہاں آسکتا ہے ۔اسے ہلاتے ہوئے
باجرہ بھرا جاتا ہے۔
۔باجرہ بھرنے کے بعد
پانی آسکتا ہے۔یہاں تک کہ ایٹم کا آخری ذرہ تک
آسکتا ہے۔
اسے کہتے ہیں وارث۔وارث کیا کرتے
ہیں؟
۔و ما یذکر الا اولی
الباب"فعتبر الا اولی الباب"
اللہ کا ذکر تو سوائے عقل والوں کے اور کوئی نہیں کرتا۔یعنی وارث ذکر الٰہی
کرتے ہیں
مگر آج یہ لوگ شیطان کی طرح ذکر
الٰہی کے خلاف ہیں۔ارے ہم ماتم کے ہرگز خلاف نہیں ہیں
آج یہ ماتم کے دوران بے ہوش ہونے
والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ کس قدر اعتقاد کا پکا بندہ ہے۔
ارے تم (ذکر الٰہی سے منہ موڑ کر
) خدا کے دشمن بنے پھرتے ہو تو حسینؑ کے عاشق کیسے بن سکتے ہو؟
لیکن ذکر الٰہی کے دوران وجدانی کیفیت
طاری ہو جائے تو کہتے ہو کہ دیکھو یہ کیسی عجیب و غریب حرکتیں کرتا پھرتا ہے۔
حالانکہ حسینؑ کا بھی وہی خالق
....جس کا ذکر یہ (اہل ذکر) کرتے ہیں
اسی لئے غوث المتاخرینؒ نے فرمایا۔جب
انبیاء اُس مقام پر پہنچتے تھے تو (اللہ کو) رب ، خالق اور رازق کے ناموں سے
پکارتے تھے۔
تم خود دیکھ لو کیوں اندھے بنے
پھرتے ہو۔اصول اعتقادیہ میں بھی ہے کہ اس منزل پر پہنچ کر ایسے ہی پکارتے ہیں۔
پھر یعسوب۔ یعسوب کا اگر وارث ہے
تو وہ دین کی حفاظت کریگا۔
یعسوب عربی میں شہد کی ملکہ مکھی کو کہتے ہیں۔وہ جسطرح شہد کی
حفاظت کر تی ہے۔ بالکل اسی طرح یعسوب دین کی حفاظت کرتا ہے۔
Safety
ا نگریزی کالفظ ہے جبکہ اس کے معنیٰ
تحفظ کرنے کو کہتے ہیں۔یعنی حفاظت کرنا
،محافظ دین بننا
کیا قرآن پاک کے مستقبل میں آنے کی باتیں کرنے والے محافظ دین بن سکتے ہیں؟
یعسوب کے وارث بن سکتے ہیں؟
کیااسلام کو فاسد اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تعلیمات
کو دو حروف سے تعبیر کرنے والے یعسوب کے وارث بن سکتے ہیں؟
اس حساب سے تو تمہارا نبی ہی ناقص
ہے تو پھر تم (تمہارادین وایمان )کیسے کامل بن سکتےہے؟
نعوذ بااللہ
حضرت آدمؑ سے لیکر خاتم الانبیاءؐ تک،
خاتم الانبیاء ؐسے شاہ سید محمد نوربخشؒ
تک
آج تک کسی دور میں بھی اس پاک دین
میں ایسے کافرانہ عقائد کا وجود نہیں تھا۔آج پہلی بار ایسے (گمراہ کن)عقائد کو لایا
گیا ہے۔
لہذا رب کی قسم ۔۔۔! جب تک ایسے
کافرانہ عقائد کا خاتمہ نہیں ہو گا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے
ان تما م چیزوں کوتحفظ کرکے حرام
محمدؐ ممدودحرام الی یوم القیامۃ ،حلال محمدؐ ممدود حلال الی یوم القیامۃ
یہ سب محافظ دین ہے ۔مجدد دین نہیں۔
آج انہوں نے اس پاک دین میں طرح
طرح کے عقائد لا کر لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔
اسلام میں کوئی بھی فرقہ اگر وہ
دائرہ اسلام میں داخل ہے
تو وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں
کی تعلیمات کو کبھی بھی "دو حروف" نہیں مان سکتا۔
اسلام میں کوئی بھی نہیں مان سکتا
کہ اسلام فاسد ہےکیونکہ اسلام کامل اور مکمل ہے۔
۔(اگر اتنا ہی شوق ہے تو)کل کو مرنے کے بعد (نکیرین
کے سوالوں کے جواب میں) والاسلام دین"
کی بجائے ولاسلام فاسد کہو
۔ 1لاکھ 24ہزار پیغمبر
کو دو حروفی اور ناقص (نعو ذ بااللہ)۔
اگر تم یعسوب دین کے وارث ہیں تو
اس کے شرائط پر پورا اترو۔۔
۔(ایسے گمراہ کن عقائد کی وجہ
سے)میرا دل بہت دکھ رہا ہے
اس لئیے میں یعسوب دین کے موضوع
کو یہیں پر روک دیتا ہوں
مفتی صاحب بھی تشریف فرما ہیں۔میں
بس آخری شرائط بیان کر کے اپنی تقریر کو ختم کروں گا
آخری شرائط کیا ہے۔۔۔۔وان
لم یوجد امام جامع لھذہ الصفات لا بد
اگر تمہیں اُن تمام جامع اوصاف
والا امام نہ ملے تو تو کم از کم (جہاد اکبر کی انجام دہی کیلئے ) ضروری ہے کہ وہ
تقیاً۔۔پرہیزگار ہو۔۔۔مرتاضاً۔۔ریاضت
کرنے والا ہو۔۔۔مکاشفاً۔۔۔کشف والا ہو۔
سیاراً فی الملکوت۔۔ملکوت
میں سیر کرنے والاہو۔۔مشاہداً۔۔مشاہدہ کرنے والا صاحب نظر ہو
طیاراًفی الجبروت۔۔۔عالم جبروت میں
پرواز کرنے والا ہو۔
فانیاً فی اللہ ۔۔ خدا کے سوا کسی
اور سے محبت کرنے والا نہ ہو۔(یعنی خدا کی یکسوئی میں فنا ہونے والا ہو)۔
باقیاًبااللہ ۔۔حیات و ممات کا
تصور ہی نہ آتاہو۔(یعنی خدا ہی کے تصور کے ساتھ باقی رہنے والا ہو)۔
عالماً بادب الطریقۃ۔۔کم از کم طریقت
کے رموز جاننے والااور علم رکھنے والا ہو۔
وقوانین الاربعین۔۔اعتکاف کی چالیس
اقسام کا جاننے والا ہو۔۔
وتربیۃ السالکین۔۔شاگردوں کی ٹھیک
طریقے سے تربیت کرنے والا ہو۔
وتعبیرات الواقعات مجازاً۔۔شاگردوں
کو نظر آنے والا واقعات کو کھول کھول کر بیان کرنے والا ہو۔
وتلقین الذکر۔۔۔ذکر الہٰی کی
زبردست تلقین کرنے والا ہو۔
وتعبیرات الواقعات مجازاً۔۔شاگردوں کو نظر آنے والا وقعات کو کھول
کھول کر بیان کرنے والا ہو۔
فی اخذ بیعۃ ۔۔وہ نبی المرسل اورولی مرشد سے بیعت والا
تربیت یافتہ ہو۔
وہ کس طرح؟؟من المرشدین کاملین
ھذا یجب ان یکون مسلسلاً الی رسول اللہؐ
اس طرح سے واجب ہے کہ اقوالِ رسولؐ
اور افعالِ رسولؐ سینے بہ سینے منتقل ہونے والا ہو۔
ذالک الامام ُ اُ میۃً۔۔۔وہ امت میں
ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو۔
ولم یکن قرشیتاً
اوھاشمیاً او علویاً لا باس بہِ
سید ، علوی ،ہاشمی وغیرہ
نہ بھی ہوتوکوئی حر ج نہیں۔
لان نسبتہ الی رسول اللہؐ باطنۃ
وھو ولدہ من نطفۃ القلبیۃ والحقیقۃ لا الصلبیۃ
تینوں فرزندوں کا ذکر فرما کر آگے
فرماتے ہیں۔لا الصلبیة میری نسل سے نہیں
کلُ تقیٍ آلہِ اشارۃ الی ھذہ التقی۔
ان اوصاف کے حامل جانشین اور وارثین
میرے وارث اور قائمقام ہیں
ان تمام اوصاف کے پیدا کرنے والے
ادارے کا نام ہے " اعتکاف" اور اس کا مرکز ہے "عالم ناسوت"
جب عالم ناسود میں اعتکاف میں نفس امارہ کا گلہ گھونٹا جاتا ہے (اب اسکو
عالم ملک میں دعوت دیا جاتاہے)۔
عالم ِ ملک میں اطوار یعنی تجلیات
الہٰی اگر اسکا استقبال کرے تو وہ علم لدنی سے سرفراز ہوتے ہیں۔
اگر ارواح ِ مقدسہ یعنی انبیاء
کرام اور اولیاءعظام اسکا استقبا ل کرے تو وہ علم وھوبی سے سرفراز ہوتے ہیں۔
اگر فرشتے اسکا استقبال کرے تو وہ
علم ملکی،خاصیتِ ملکی ، اخلاقی ملکی سے سرفراز ہوتے ہیں۔
حضرت امام حسن عسکری ؑ
علم ملکی کے حامل تھے۔میں علم ملکی کا ایک واقعہ بیان کر کے اپنے خطبے کا اختتام
کروں گا
جب آپ ؑ (امام حسن عسکریؑ )کو
معتصم باللہ نے بطور قیدی کسی اونچی چٹان
پر لے
گئے
اور پوچھنے لگےکہ آپؑ کو ڈر لگ
رہا ہے کہ نہیں؟
جواب میں آپ ؑنے فرمایا کہ تم
اپنا لشکر لیکر آجاو
جب اس کا لشکر آگیا تو آپؑ نے
اللہ کے حضور دو رکعات نفل ادا فرما کر آسمان کی طرف اشارہ فرمایا
اشارہ فرماتے ہی معتصم باللہ کے
لشکر سے دس گنا زیادہ فرشتے ہتھیاروں سے لیس ہو کر آسمان سے اترنے لگے
یہ دیکھ کر معتصم باللہ تھر تھر
کانپنے لگا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ علم ملکی کے حاملین فرشتوں پر بھی دسترس رکھتے ہیں
یہ کیسے ممکن ہوتا ہے؟ اس بارے میں پھر کبھی گفتگو ہو گی۔ورنہ
(نماز) قضا ہو جائے گا۔تو یہ تھا علم ملکی کا واقعہ
لشکر سے عسکر اخذ ہوا ہے اور عسکر لقب ہے
لشکر سے عسکر اخذ ہوا ہے ۔ اور
عسکر آپؑ (ا مام حسن عسکری ) کا لقب ہے۔یہ تاریخ میں موجود ہے۔
اسی لئے رب نے فرمایا ۔۔واعطینا
من لدنا علما ۔۔( ہم انہیں علم لدنی سے نوازتے ہیں )۔